میرے نفس حیات کا ساز ہو تم اور اس کی ہر لے پر تمہاری سانسوں کے سوسجتے ہیں
تمہاری اور میری سانسیں سر کے اسی سفر پر خوشیوں کی راگنیاں چھیڑتی ہیں
تم دن کو جو ملو مجھے تو سانولی شاموں کو بھی پر لگ جاتے ہیں
میں رات کو جو پاؤں تمہیں تو صبح کا زب کو بھی ستارے بھول جاتے ہیں
میرے شاعر
تم میرے ہر صبح اور ہر شامکی دھڑکن میں دن بن کر دھڑکتے ہو
جانتی ہوں کچھ وقتوں سے تما داس اور کھوئے کھوئے سے رہتے ہو
میرے شاعر
تم تو شاعر ہو تمہیں تو ہر وقت ہی سچ کو ڈھونڈنا ہے
صفحہ قرطاس پر اپنے خون سے حوالہ وقت کو بھی لکھنا ہے
سہر منافق میں گوہر ہوئے کیسے نایاب یہ سب کو بتانا ہے
آکہی عذاب ہے اور تمہیں اس میں ہی اب دن رات رہنا ہے
میرے شاعر
میرے پاس آؤ، یہی میرے ساتھ ہی بیٹھ جاؤ، مجھے اپنی وحشتوں سے بھر دو
ہاتھوں کو اپنے میرے ہاتھوں سے باندھ دو اورمجھے نئی روشنیوں سے بھر دو
آنکھوں میں اپنی سجا لو مجھے اور مانگ میری بخت کے تاروں سے بھر دو
میرے شاعر
تم آج خود کلامی کے لمبے سفر سے لوٹے ہو اور تھک بھی گئے ہو
یوں کرو شانوں پر میرے اپنا سر رکھ دو آنکھوں کو موند لو
میں تمہارا ہی پر تو تمہارا ہی تراشا ہوا صندلی مجسمہ ہوں
اب میری پلکوں کو اپنی آنکھوں سے الجھ جانے دو
میرے شاعر
تم آج خودکلامی کے لمبے سفر سے لوٹے ہو اور تھک بھی گئے ہو
یوں کرو شانوں پر میرے اپنا سر رکھ دو آنکھوں کو موند لو میں تمہارا ہی پر تو تمہارا ہی تراشا ہوا صندلی مجسمہ ہوں
اب میری پلکوں کو اپنی آنکھوں سے الجھ جانے دو
میری آوازکو عروس امید بن کر بکھر جانے دو
میرے شاعر
میرے شاعر آج مجھے اپنا ہو جانے دو
About Me
- Abid Sahir
- al madinah manwarah, madinah, Saudi Arabia
Saturday, April 19, 2008
میرے شاعر
بارشیں
جب پاس ہوتی ہے
بارشوں جیسی برستی ہے
محبت جب پاس نہیں ہوتی
بارشوں جیسی کر جاتی ہے
تم
لکھا ہے تم نے
تمہاری جستجو کو پھر میری تالاش ہے
تمہاری لا مکانی کو میری ہی آس ہے
میری یاد بھی جیسے روح پہ خراش ہے
میری دوری بھی رکھتی تمہیں اداس ہے
اور یہ بھی لکھا ہے
بارش جب بھی یہاں برستی ہے
گیلی مٹی تم سے وہاں لپٹی ہے
لان میں پھول جتنے کھلتے ہیں
وہ سارے میری باتیں کرتے ہیں
گلہ بھی تم اچھا کر لیتے ہو
ایسا کیوں سب لکھ دیتے ہو
کتابیں میں کیسے اتنی پڑھ لیتی ہوں“
”لفظ، رمز جب کچھ نہیں سمجھتی ہوں
سنو جی
(تمہیں دھیان میں لاکر مسکرا رہی ہوں)
بارش، مٹی پھول، کتابیں
لفظ ، رمز
سب نام تمہارے ہیں
یاد کے استعارے ہیں
ہر بار کتہ رہی ہوں کئی بار لکھتی رہی ہو
!” میری جستجو کو اب کسی کی تالاش نہیں“
! پھر ایک بار وہی لکھ رہی ہوں
! بکھرے لمحے سمیٹ رہی ہوں
تمہیں یاد ہے نا
(بھلا تمہیں بھی کیسے بھولا ہوگا)
وقت وعدہ
ایک پل جو تم یہاں چھوڑ گئے تھے
اسی وصالکے ایک پل میں
‘تم“
! میرے پاس ہی تو رگہ گئے تھے
جگنو
جان ِمن سنو
تم تو ایک مدت سے روشن ملک میں رہتے ہو
صبح سے شام بھی اُجالوں کے ساتھ ہی کرتے ہو
بس یونہی کہہ رہی ہوں بات کچھ اہم بھی نہیں ہے
یوں تو تم روز ہی کہی نہ کہی کسی سفر پہ جاتے ہو
پر آج ایسا کرو اس سفر پر یہ جگنو بھی ساتھ لیتے جاؤ
اسے اپنی مٹھی میں بھر لو اور اپنے دل سے لگا لو
یہ جگنو استعارہ ہے میری ذات کا
حوالہ ہے میری یاد میری بات کا
انتساب ہے پیار کا جو میں نے تمہارے نام لکھا
ممکن ہے اس سفر میں کوئی ایسی رات بھی آجائے
جو وقت کی قید سے آزاد اور اماوس جیسی ہو جائے
دور تلک پھر گہرے بادلوں کو دھوپ بھی نایاب ہو جائے
اور تمہاری تھکن کو ان راستوں پر کوئی شجر سایہ دار بھی نہ مل پائے
ایسا ممکن تو نہیں ہے کہ ایسا ہو کہ تم دوستوں میں نہ ہو
اتنی بھیڑ میں کوئی ہمراء چلنے والانا ہو
اتنی آوازوں میں کوئی تمہیں پکارنے والانا ہو
پر ممکن ہے جان من ممکن ہے، سب کچھ ممکن ہے
جب داستان حیات میں وفاکا کا اورکوئی باب نا رہے
وقت کے دامن میں چھپی اور کوئی امید آس نارہے
خاموش صحرا میں گنگناتی سحر گویائی بھی نارہے
پھر تم اپنی مٹھی کھول کر دیکھنا
تمہارے ہاتھ پر میری بیعت کا جگنو ہوگا
وہی جگنو
!!!! جو انتساب ہے پیار کا جو میں نے تمہارے نام لکھا
Tuesday, April 15, 2008
کہو وہ چاند کیسا تھا
کہو وہ چاند کیسا تھا
کہو وہ چاند کیسا تھا
جدھر سب کچھ لٹا آئے
جدھر آنکھیں گنوا آئے
کہا سیلاب جیسا تھا ، بہت چاہا کہ بچ نکلیں ، مگر سب کچھ بہا آئے
کہو وہ ہجر کیسا تھا
کبھی چو کر اسے دیکھا
تو تم نے کیا بھلا پایا
کہا بس آگ جیسا ، اسے چھو کر تو اپنی روح ، تن من سب جلا آئے
کہو وہ وصل کیسا تھا
تمھیں جب چھو لیا اس نے
تو کیا احساس جاگا تھا
کہا اک راستے جیسا ، جدھر سے بس گذرنا تھا ،مکاں لیکن بنا آئے
کہو وہ چاند کیسا تھا
فلک سے جو اتر آیا
تمھاری آنکھوں میں بسنے
کہا وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اک شب سلا آئے
کہو وہ عشق کیسا تھا
بنا سوچے ،بنا پرکھے کیا تم نے
کہا تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بھلا آئے
کہو وہ نام کیسا تھا
جسے صحراؤں اور چنچل
ہواؤں پر لکھا تم نے
کہا بس موسموں نےجیسا ، نجانے کس گھڑی کس پل ، کس رو میں مٹا آئے
Tuesday, April 8, 2008
Tuesday, April 1, 2008
محبت
سنا تھا کسی شاعر سے
محبت نہ کرنا ا یہ پاگل کر دیتی ہے
سنا تھا کسی پروانے سے
محبت نہ کرنا ا یہ جان لیتی ہے
کل شوق محبت میں جانا
محبت تو رنگ بکھیرتی ہے
محبت تو خوشی دیتی ہے
اب کل کی بات ہے
تتلیوں کے پروں پہ
رنگ ملے تھے چاہت کے
بلبل کی چہک میں
شوخی تھی محبت کی
آج ہوئی محبت تو جانا
چاند تنہا کیوں رہتا ہے
کوئی مکمل کیسے ہو تا ہے
Contents on my Blog

urdu poetry websites in pakistan
UrduPoint.com
www.urdupoint.com
Urdu123.com
www.urdu123.com
UrduShairy.com
www.urdushairy.com/forum/